اقلیتی کمیشن کے 6رکنی ٹیم نے مقتول آفتاب انصاری کے اہل خانہ سے کی ملاقات


ہیمنت حکومت میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی: ہدایت اللہ خان
رام گڑھ: جھارکھنڈ اقلیتی کمیشن کی 6 رکنی ٹیم مقتول آفتاب انصاری کے اہل خانہ سے ملنے سے رام گڑھ پہنچی۔ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین حاجی ہدایت اللہ خان، نائب چیئرمین شمشیر عالم، ممبر قاری برکت علی، اقرار الحسن وغیرہ نے مقتول کے اہل خانہ سے ملاقات کر انہیں تسلی دی اور ہر ممکن تعاون کا بھروسہ دلایا۔ چیئرمین حاجی ہدایت اللہ خان نے کہاکہ ہیمنت حکومت میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی اور قصوروار بخشے نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ آفتاب انصاری کی پر اسرار موت میں تھانہ انچارج انسپکٹر پی کے سنگھ کا کردار مبینہ طور پر شک کے دائرے میں آتاہے۔ انسپکٹر نے اپنے سینئر افسران کو بھی گمراہ کن بیان دئے اور کہاکہ آفتاب انصاری کو چھوڑ دیاگیا ہے اور گھر چلاگیا۔ اسی کے بعد پھر ایس پی کو بیان دیتاہے کہ وہ تھانے سے فرار ہوگیااور اس کا ویڈیو بنایاگیا ہے جو فلمی انداز میں لگتاہے۔ چیئرمین نے بتایاکہ مقتول کے اہل خانہ سے ملنے کے بعد گائوں سے بھی ملاقات کی اور جانکاری حاصل کی۔ اس کے بعد ڈی سی و ایس پی سے بھی سرکٹ ہائو س میں بات چیت ہوئی۔ اعلیٰ افسران نے بھروسہ دلایاہے کہ آفتاب انصاری کے اہل خانہ کو انصاف ضرور ملے گا۔ اس میں جو بھی قصوروار ہے اسے بخشا نہیں جائےگا۔ معلوم ہوکہ جھارکھنڈ کے ضلع رام گڑھ میں ایک نوجوان کی پُراسرار موت نے پولیس کی کارروائیوں پر کئی سوالات کھڑے کر دیےتھے۔ متوفی آفتاب انصاری کی لاش 26 جولائی کو دمو در ندی کے کنارے سے ملی تھی، جبکہ پولیس کا دعویٰ تھاکہ وہ دو دن قبل ان کی حراست سے فرار ہو گیا تھا۔آفتاب انصاری، جو ’عرشی گارمنٹس‘ نامی دکان میں ملازم تھا، پر 23 جولائی کو جنسی ہراسانی کا الزام لگا کر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اسی دن تین افراد، جو خود کو ’ہندو ٹائیگر فورس‘ کے رکن بتا رہے تھے، دکان پر آئے اور آفتاب کو مبینہ طور پر مار پیٹ کر زبردستی باہر لے گئےتھے۔ دکان کی مالکن نیہا سنگھ اور دیگر گواہوں کے مطابق، ان افراد نے مذہبی گالیاں دیں اور آفتاب کو قتل کی نیت سے پیٹاتھا۔اس کے بعد، آفتاب کی بیوی صالحہ خاتون کے مطابق، پولیس موقع پر پہنچی اور آفتاب کو اپنی تحویل میں لے گئی تھی۔ اہلِ خانہ نے الزام لگایا تھاکہ آفتاب نہ تو عدالت میں پیش ہوا، نہ کسی تھانے میں دکھائی دیا اور پھر اچانک دو دن بعد اس کی لاش ندی کے کنارے ملی تھی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ آفتاب 24 جولائی کو حراست سے فرار ہو گیا تھا لیکن مقامی شہری اور اہلِ خانہ اس بیان سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔

آفتاب کی موت کی خبر پھیلتے ہی ہفتے کی شب بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے اور شدید احتجاج کیا تھا۔ مظاہرین نے اس واقعے کو مذہبی منافرت پر مبنی منظم موب لنچنگ قرار دیا اور مطالبہ کیا تھا کہ آفتاب کی موت کی غیر جانب دارانہ عدالتی جانچ ہو۔اس معاملے میں پولیس نے ہندو ٹائیگر فورس کے ایک رکن راجیش سنہا کو گرفتار کیا تھا، جس پر الزام ہے کہ اس نے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایسی پوسٹس اور اسکرین شاٹس شیئر کیے جن میں آفتاب پر مذہب کی تبدیلی اور جنسی استحصال جیسے الزامات لگائے گئے تھے۔
