اردو زبان ملک سے اجنبی ہوتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم


اردو زبان ملک سے اجنبی ہوتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم
دلدارحسین مصباحی
خطیب وامام جامع مسجد چاس
بوکارو۔۔۔۔
چاس بوکارو
میں کبھی کبھی یہ سوچ کر سہم جاتا ہوں کہ عوام اب بہت سے ایسے اردو الفاظ سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں جو آج سے تیس سال پہلے تک ہماری زبانوں پر جاری تھے۔
مثلا کنارے کے بدلے سائیڈ، بتی یا بجلی کی جگہ لائٹ، سڑک کی جگہ روڈ، صفر کی جگہ زیرو،گیند کی جگہ بال،میدان کی جگہ گراونڈ،رکابی کی جگہ پلیٹ،باوچی خانے کی جگہ کچن،سلاد کی جگہ سیلیڈ، گاڑی کی جگہ ٹرین،مسہری کی جگہ بیڈ،کاغذ کی جگہ پیپر،قلم کی جگہ پین،چچا خالہ کی جگہ انکل آنٹی، دھونے کی جگہ واش، کتے کی جگہ ڈوگی،پھل کی جگہ فروٹ،تتلی کی جگہ بٹر فلائ، حادثے کی جگہ ایکسیڈنٹ،دوائ کی جگہ میڈیسن، درخواست کی جگہ ایپلی کیشن،وقت کے بدلے ٹائم،دروازے کے بدلے گیٹ، پنکھے کے بدلے فین،غسل خانے کے بدلے واش روم، چمچے کے بدلے اسپون،میز کے بدلے ٹیبل،زیور کے بدلے جیولری،پاجامے کے بدلے ٹراوزر،قمیص کے بدلے شرٹ،کپڑے والے الماری کے بدلے
وارڈروب،تیل کے بدلے آئل،بدعنوانی کے بدلے کرپشن،وغیرہ اور یہ فہرست یہی آکے ختم نہیں ہوجاتی۔میں کہتا ہوں ابھی تو اردو کے الفاظ سمجھنے والی
پھر بھی ایک بڑی نسل باقی ہے، لیکن تب کیا ہوگا جب آج کی یہ بچہ نسل جوان ہوکر ان کی جگہ لے گی؟تب تک تو بہت زیادہ دیر ہو چکی ہوگی اور انکے لیئے بیشمار الفاظ اجنبی بھی بن چکے ہوں گے پھر ایک تسلی دل کو یہ سوچ کر بہر حال ہوتی ہے کہ زبان تو ادیبوں شاعروں استادوں کے ہاتھوں پروان چڑھتی اور مضبوط ہوتی ہے۔
جب بھی کسی لفظ کے درست یا نادرست ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اصولی پر اسے ادیبوں اور شاعروں کی تصنیفات میں تلاش کیا جاتا ہے اور یوں غلط الفاظ کے داخل ہونے سے زبان محفوظ رہ جاتی ہے۔مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہےکہ آنے والے دور کے شاعر بھی تو انہیں تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے ہوں گے،
جہاں سے اردو زبان کے بہت سے الفاظ سے وہ آج ناآشنا ہیں۔
انکے اشعار میں بھی انگریزی ہی کے متبادل الفاظ پائے جائیں گے۔ ادھر مشاعرے، جو ترویج وصورت میں ناگریز کردار ادا کرتے ہیں، وہ بھی اب عنقا ہوچکے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ جان کر اور بھی دکھ سوا ہو جاتا ہے کہ شعراء جو زبان کو پکڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں، خود انکی اردو بھی تو اب شرمناک ہونے لگی ہے۔ دوسری طرف مستقبل کے اساتذہ کی صورت حال بھی اس سے کچھ الگ نہیں ہوگی۔ اردو کے ذخیرے سے بہت زیادہ ناواقف تب یہ سوچ سوچ کر دل بجھ جاتا ہے کہ پھر کیا ہوگا؟دوسال کی۔ابھرتی چمکتی اور آگے بڑھتی ہوئ گزرے ہوئے کل کی گنگا جمنی اردو، آنے والے کل کی کیا ایک ملغوبہ اور بدصورت زبان بن جائے گی؟ لیکن کبھی کبھی دل اس حقیقت سے مسرور ہوتا ہیکہ اردو کے ماشاء اللہ تمام دنیا کی جامعات میں پڑھائ جارہی ہے تو،ظاہر ہیکہ وہ زندہ ہی رہے گی۔ مگر ادھر انگریزی الفاظ کی بھرمار ہے
ہمارے ملک کی زبان ہندی بھی یلغار کیئے ہوئے ہے، بلکہ بولنا تو درکنار ہمارے شعراء کو تو اردو کی املا بھی درست طور پر نہیں آتی۔ذرا کوئ نیا لفظ کہیئے اور سمجھنے اور لکھنے میں موجودہ نسل کی بے بسی دیکھیئے تر س آنے لگتا ہے۔
ہم بیشک اپنی زبان پر ناز کرتے رہیں ہیں اور اسکے مستقبل سے مطمئن بھی رہیں، لیکن حقیقت یہ کہ اردو رفتہ رفتہ اپنا مقام چھوڑتی چلی جارہی ہے۔ کسی حدتک تو بلکہ وہ آج بھی اجنبی سی ہے۔ چنانچہ اور آگے جاکر شاید وہ مزید اجنبی شکل اختیار کر لے گی۔
اگر ایسا ہوا تو ہم سب کے لیئے خسارے کا سبب ہوگا، کیونکہ ہمارا بیشمار ادبی وعلمی خزانہ اسی زبان میں ہے اور دینی خزانے کے لامحدود ہونے کی تو بات ہی نہ کی جائے۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ قومیں،زبانوں سے ہی تشکیل پاتی ہیں اور زبانوں سے ہی قوت حاصل کرتی ہیں
زبان ہمارا ماضی ہے، زبان ہمارا مستقبل ہے
