اردو زبان کا فروغ اور مدرسہ کلیۃ البنات للتربیۃ الاسلامیہ


مولانا علی حسن ندوی رانچوی” ایک توصیفی تقریب انعقاد
رانچی: آج بتاریخ 22 جون بروز اتوار کلیۃ البنات للتربیۃ الاسلامیہ پر ہے پارٹ رانچی میں انجمن فروغ اردو جھارکھنڈ کے بینر تلے”بعنوان مولانا علی حسن ندوی رانچوی” ایک توصیفی تقریب برائے اردو طلبہ و طالبات کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس توصیفی تقریب کے انعقاد کا مقصد 2025 میں جیک بورڈ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں اردو مضمون میں رانچی کے راتو بلاک میں امتیازی نمبر سے کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات کی ہمت افزائی اور انہیں اعزازی سند اور تمغہ سے نواز کر ان کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کرنا تھا ۔ اس توصیفی تقریب کا آغاز قاری شکیل احمد ندوی استاذ کلیہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، اس کے بعد اردو زبان کی اہمیت اور اس کی ترقی و فروغ کے سلسلے میں مولانا محمد خورشید ندوی معتمد تعلیمات کلیۃ البنات اور ناظم جلسہ نے تمہیدی تقریر کی : جس میں انہوں نے کہا کہ زبان کوئی بھی ہو وہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے ، مگر اردو زبان چونکہ عربی زبان سے قریب ترین زبان ہے اس لیے اس کی اہمیت مزید دو بالا ہو جاتی ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ زبان ایک دوسرے کے غم میں اور خوشی میں شریک ہونے کا ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے اسی لیے اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کو زبان کا وسیلۂ تکلم دے کر دنیا میں بھیجا ۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اس کے بعد مولانا اعجاز عالم ندوی استاد کلیۃ البنات نے جناب مولانا علی حسن ندوی رانچوی مرحوم کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا ۔ اس کے بعد انجمن فروغ اردو جھارکھنڈ کے صدر جناب اقبال صاحب نے اردو زبان کی اہمیت اور فروغ اردو کے سلسلے میں کوشش کرنے والوں کی خدمات کو سراہا اور چند مثالوں کے ذریعے سے سامعین طلبہ و طالبات کو فروغ اردو کے سلسلے میں ابھارا اور حالیہ امتحان میں اردو مضمون میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر انہیں مبارکباد دی اور ان کی ہمت افزائی کی بات کہی ۔ اس کے بعد کلیۃ البنات کے مہتمم مولانا عبداللہ ندوی نے کلیۃ البنات کے قیام کا مقصد اور اس کی خدمات پر روشنی ڈالی اور کامیاب طالبات کو تعریفی اور توصیفی کلمات سے نوازا ۔ اس کے بعد آخر میں جناب مولانا نظام الدین صاحب ندوی بانی و ناظم کلیۃ البنات نے اردو زبان کی اہمیت اس کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ یہ زبان زیادہ تر مسلمان ہی بولتے اور برتتے ہیں اس لیے اس زبان کو خالص مسلمانوں کی زبان سمجھ لیا گیا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زبان کوئی بھی ہو وہ کسی قوم کی زبان نہیں ہوتی ہے بلکہ زبان تو دوسرے کے درد و غم میں شرکت کا وسیلہ ، افہام و تفہیم اور ارسال و ترسیل کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ اردو زبان بھی ایک وسیلہ ہے ، یہ زبان بڑی شیریں زبان ہے ، جذبات کی بہترین ترجمانی کرتی ہے اس لیے کہ یہ فطرت سے قریب ترین زبان ہے ۔ مگر بہت افسوس کی بات ہے کہ اس زبان کے ساتھ اب حکومتی اور عوامی سطح پر بھی بیگانوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج کی اس توصیفی تقریب میں تقریبا ایسے ڈیڑھ سو طلبہ و طالبات کو توصیفی سند اور میڈل سے نوازا گیا

جنہوں نے رانچی کے راتو بلاک سطح پر جھارکھنڈ بورڈ کے حالیہ امتحان میں اردو کے مضمون میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ۔اس پروگرام کو کامیاب اور با مقصد بنانے میں جن حضرات نے نمایاں کردار ادا کیا ان کے نام یہ ہیں : مولانا ابرار عالم ندوی بن مولانا علی حسن ندوی رانچوی ، جناب راشد جمال ریسرچ اسکالر رانچی کالج ۔ مولانا رفیق ندوی ، مولانا سلیم الدین ندوی ، مولانا عبدالمبین ندوی، مولانا طارق ندوی ، ماسٹر اطھر ، ماسٹر خورشید ، جناب طارق صاحب ، محترمہ آرزو صاحبہ ، محترمہ گل افشاں صاحبہ ، محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ ، محترمہ راضیہ عائشہ صاحبہ اور کلیۃ البنات کے دیگر طالبات و رضاکار حضرات ۔
