جناب محمد سعید ادریسی صاحب کی سماجی خدمات ( مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )


میرے اس مضمون کا عنوان پڑھ کر ہی کئی تنگ نظر اور کم ظرف قسم کے لوگوں کے ہوش اڑ گئے ہوں گے اور ان کے دل و دماغ میں کئی قسم کے سوالات اٹھ رہے ہوں گے کہ ” یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے” اور وہ از خود ایک تخیلی جواب سے اپنے آپ کو مطمئن کر لیں گے کہ” بے خودی بے سبب نہیں غالب ـ کچھ تو ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے” جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر انسان کی خوبیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور خامیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے ، جناب محمد سعید ادریسی صاحب بنیادی طور پر سنٹرل اسٹریٹ ہند پیڑھی رانچی کے رہنے والے ہیں ،غربت و افلاس اور تنگ دستی کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا بھی ہے اور برتا بھی ہے ،اسی لئے مالداری اور خوشحالی کا جب دور شروع ہوا تو انہوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کی اور ان کا تعاون کیا،

سینکڑوں غریب بچیوں کی اپنے خیب خرچ سے شادی کرائی کتنے ہی بچوں تعلیم جاری رکھنے کے لئے مدد کی ،سعید صاحب کے دل میں شاید یہ خیال آیا ہوگا کہ انفرادی مدد اور تعاون کے علاوہ کسی بڑے سماجی ادارے سے منسلک ہو کر اجتماعی طور پر قوم و ملت کی خدمت کی جائے شاید اسی جذبہ کے تحت انہوں نے انجمن اسلامیہ رانچی کا چناؤ لڑا اور جیت بھی گئے کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کے تمام طبقے کی حمایت انہیں حاصل تھی ، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ محمد سعید صاحب کے صدر بننے کے بعد ہی انجمن اسلامیہ رانچی کا سیاسی اور سماجی گراف بڑھا اور اونچا ہوا جس کے بعد سے ہی انجمن اسلامیہ رانچی کا چناؤ لڑنے اور انجمن اسلامیہ کے عہدے کا ٹیبل لگا کر شہرت و مقبولیت حاصل کرنے کی ایک ہوڑ لگ گئی، انجمن اسلامیہ رانچی کو عوام اور ضلع انتظامیہ کے نزدیک مقبول بنانے میں انہوں نے اپنے دور صدارت میں مستقل کئی فلاحی کام کئے جو پہلے کبھی نہیں ہوے جیسے مولانا آزاد کی یوم پیدائش کے دن کو ہر سال ” یوم تعلیم” کے عنوان سے مولانا آزاد ڈے منانا اور مختلف تعلیمی پروگراموں کے ذریعہ مولانا ازاد کے مشن کو عام کرنا اور ان سے لوگوں کو متعارف کرانا ، بچوں میں بڑھتی ہوئی معذوری کو دور کرنے کی خاطر بھارت سرکار کے” پولیو ڈروپ ” مہم کو انجمں اسلامیہ رانچی کے پلیٹ فارم سے ایک ایک محلہ اور ایک گلی گلی تک پہچانا اور لوگوں کے اندر پولیو کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پولیو ڈروپ پلانے کے لئے بیدار کرنا اور اس کی ترغیب دینا ، اسی طرح محمد سعید صاحب کے صدر بننے کے بعد انجمن اسلامیہ اسپتال کی حالت میں بھی کافی سدھار ہوا انہوں نے ذاتی طور دلچسپی لیتے ہوئے اپنے ذاتی خرچ سے اسپتال کے ایک حصے کی تعمیر کرائی ، اکسرے مشین دستیاب کرایا اور کئی طرح کی سہولیات انجمن اسلامیہ اسپتال کو فراہم کرایا ،محمد سعید صاحب کے توسط سے شہر کے بڑے بڑے اور اچھے ڈاکٹروں نے انجمن اسلامیہ اسپتال سے جڑ اپنی خدمات دینا شروع کیا جس کی وجہ کر انجمں اسلامیہ اسپتال پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر نظر آنے لگا ،اسپتال کو بہتر بنانے میں جناب حلیم صاحب اور ان کی پوری ٹیم کا تعاون سعید صاحب کو حاصل رہا،انجمن اسلامیہ کے علاوہ شہر اور دیہات کے بیشتر اداروں کی انہوں نے مختلف مواقع پر مدد کی اور بھر پور تعاوں بھی کیا، سب سے بڑی بات یہ کہ انہوں نے مسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر چھوٹے بڑے دینی اور دنیادی اداروں اور تنظیموں اور ضرورت مند افراد کی مدد کی اور ان کا تعاون کیا، اگر محمد سعید صاحب کو مخلص اور انہیں کی طرح بے لوث سماجی و دینی خدمت کا جذبہ رکھنے والے چند افراد مل جاتے اور ان کا بے لوث ساتھ دیا ہوتا تو ان کے عروج اور ترقی کے دور میں مدرسہ اسلامیہ رانچی اور مولانا ازاد کالج کی اپنی عالیشان بلڈنگ بن گئی ہوتی تو آج مولانا آزاد کالج اور مدرسہ اسلامیہ رانچی اور انجمن اسلامیہ اسپتال بام عروج پر ہوتا ،اپنے دور صدارت میں سعید صاحب نے تعلیم اور صحت پر بہت کام کیا ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا اور نہ بھلایا جانا چاہیے ،لیکن رانچی والوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ بہت جلد احسان فراموشی کا شکار ہوجاتے ہیں، اپنی اسی اثسان فراموشی کی وجہ کر رانچی والوں نے کتنوں کی سماجی خدمات کو نے بھادیا جس کی ایک کمبی فہرست ہے ،انجمن اسلامیہ رانچی کے علاوہ دوسرے کئی دینی اور دنیاوی اداروں کو سعید صاحب نے پروان چڑھایا ، مثلاً رانچی کے قلب میں واقع اقراء مسجد کی تعمیر و ترقی میں بذات خود انہوں نے کئی موقعوں پر اپنی معاونت کا اقرار کیا ہے،اسی طرح ہند پیڑھی میں واقع ” اسلامی مرکز” کی زمین کی خریداری سے کر اس کی تعمیر و ترقی اور اس ادارہ کو وسعت دینے میں سعید صاحب کا بہت بڑا تعاوں رہا ہے ،اسی طرح ” ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ” کو اگر سعید صاحب جیسا سرپرست بعد میں صدر نہ ملا ہوتا تو ادارہ شرعیہ گمنامی کے اندھیرے کہیں گم ہوتا ، ادارہ شرعیہ کے مالی اخراجات کو پورا کرنے میں بھی سعید صاحب کا سب سے زیادہ تعاون رہا ہے اور رہتا ہے جس صحیح اندازہ اس کے ناظم اعلیٰ کو ہی ہوگا ، نا انصافی ہوگی اگر سعید صاحب کی سماجی خدمات کے ذیل میں ہند پیڑھی رانچی جی ،ٹی ،روڈ پر واقع ” مشہور و معروف تعلیمی ادارہ” ادریسیہ تنظیم مڈل/ ہائی اسکول کا ذکر نہ کیا جائے ، اپنی والدہ مرحومہ کے ایصال ثواب کے نام پر سعید صاحب نے ادریسیہ اسکول کی غالباََ دو منزل عمارت کی تعمیرِ اپنے خرچ سے کرائی اور اسکول کی تعمیر و ترقی اور اس کی توسیع میں سعید صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ،ادریسیہ اسکول کی تعمیر وترقی میں جناب عمر بھائی کا بھی تعاون سعید صاحب کو حاصل رہا ہے، اس کے علاوہ جامعہ نگر کڈرو کی رہائشی زمینوں کے ایک بڑے حصے جس میں مدرسہ جامعہ حسینہ بھی شامل ہے کا موٹیشن سعید صاحب نے اپنے خرج سے کرایا ہے یہ بات انہوں نے ایک موقعے پر خود ایک میٹنگ میں بتایا تھا ، اسی طرح ہر سال مختلف جلسوں اور مذہبی جلوسوں کے اخراجات کا بڑا حصہ سعید صاحب ہی ادا کرتے رہے ہیں جس سے کئی لوگ کی چاندی ہوتی رہتی ہے ، اس کے علاوہ مختلف تہواروں میں الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اور دوسرے کئی لوگوں کی جیبیں بھی سعید صاحب کی ذاتی رقم سے گرم ہوتی رہتی ہیں ،جناب سعید صاحب کی سماجی خدمات کا مکمل احاطہ میں نے اپنے اس مضمون میں نہیں کیا ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس سے اگے یا اس سے زیادہ ان کی سماجی خدمات کا ریکارڈ موجود ہو جس کا مجھے یا سوائے سعید صاحب کے کسی کو علم نہ ہو ، مختصر یہ کہ تمام تر مسلکی اختلافات کے باوجود سعید صاحب ایک نیل دل اور بااخلاق اور ملنسار انسان ہیں وہ اپنے مخالفین سے بھی ہنس کر اور بڑے اخلاق سے ملتے ہیں ،اخیر میں ایک بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ یہ کہ مغل بادشاہ اکبر اپنے شروع کے دور میں بڑا دیندار اور کٹر مذہبی آدمی رہا تھا لیکں بعد میں جب اس کے اردگرد مفاد پرست اور موقع پرست ملاؤں کا جمگھٹا لگنا شروع ہوا اور ایک دوسرے کی غیبت اور برائی کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا عمل شروع ہوا تو انہیں ملاؤں نے اکبر کو ” دین الٰہی” اور اکبر اعظم کو ” ظل الٰہی” کا راستہ دکھایا ،ٹھیک یہی حال سعید صاحب کے ساتھ بھی ہوا ،مفاد پرست اور موقع پرست ملاؤں نے ہی انہیں خوش کرنے اور ان مالی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہنے کی نیت سے انہیں ادارہ شرعیہ کا سرپرست اور بعد میں صدر بنادیا ، اس سے پہلے سعید صاحب سب کے تھے اور سب ان کے تھے لیکں اکبری ملاؤں نے سعید صاحب پر مسلکی لیبل لگا کر ان کو اپنے لئے خاص کرلیا جس سے سعید صاحب کی ذات اور ان کی شخصیت پر ایک منفی اثر پڑا ،سعید صاحب نے بہت سارے سماجی اور فلاحی کام کئے لیکن احسان فراموشی کے شکار سے وہ بھی نہیں بچ پائے جس کا احساس انہیں بہت بعد میں ہوا اسی وجہ کر قومی و ملی اور سماجی خدمت اب وہ اپنے طور پر بہت ہی خاموشی کے ساتھ اپنے ذاتی ادارتے میں ہی کر رہے ہیں اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہیں ،ہند پیڑھی میں اپنی زمیں پر ” رانچی پبلک اسکول” کے نام سے ایک کامیاب تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں ، اسکول کے پیچھے والی اپنی ذاتی زمین پر اپنے ذاتی خرچ سے کالج کے لئے ایک عالی شان عمارت بن کر تیار ہے ، سعید صاحب کا یہ اسکول اور کالج کے لئے بنی بلڈنگ سماج کے ان امیروں اور صاحب حیثیت لوگوں کے لئے ایک مثال بھی ہے اور ایک طمانچہ بھی ہے جو اپنے بل بوتے کچھ کرنے کی نہ تو ہمت رکھتے ہیں اور نہ صلاحیت اور نہ قومی و ملی جذبہ ، امید ہے کہ سعید صاحب کے بیٹے اپنے والد کی تعلیمی و فلاحی اور سماجی خدمات کی وراثت کو اپنے والد کی طرح قاہم اور باقی رکھیں گے ان شاءاللہ
