اُردو صحافت کے ایک مضبوط ستون تھے مشاہد سعید : ایم ڈبلیو انصاری ( آئی پی ایس)
ایک اچھے انسان کے جانے سے جو خلا ہوتا ہے وہ یقیناً کبھی پر نہیں ہوتا لیکن انسان کا کردار اگر اچھا ہو تو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے۔ بھوپال کے نامور اور ممتاز اردو صحافی جناب مشاہد سعید کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ اُردو صحافت کو اپنا مشغلہ بنانے والے مشاہد صاحب تقریباً ۳۰ رسالوں سے بھی زائد عرصے سے اُردو صحافت کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا نا قابل تلافی نقصان
ہے۔ آپ کے جانے سے اردو صحافتی حلقوں میں غم کا ماحول ہے۔ آپ بہت ملنسار، با اخلاق اور ملت کا در درکھنے والے تھے۔ تقریباً ۳۰ سالوں سے آپ اُردو صحافت کی ترجمانی کر رہے تھے۔ آپ کے اندر جو اوصاف و کمالات تھے وہ اس دور قحط الرجال میں مل پانا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ اُردو
صحافت کا ایک روشن چراغ تھے جواب بجھ گیا ہے۔
آج جب ہمارے اُردو اخباروں کو دیکھتے ہیں تو شاعری، لطیفے، کسی ناول نگار کا تعارف ، بچوں کی دنیا اور دیگر تمام دنیا بھر کی رطب و یابس سے بھرے ہوتے ہیں۔ موجودہ مسائل پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ کسی طرح ہماری اوقاف کی اراضی حکومتی قبضے میں جارہی ہیں ۔ قدیم مساجد کو آباد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ عید گاہ کی حالت خستہ ہو رہی ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے ، قدیم عمارتیں ویران کی جارہی ہیں اور ہماری بھارتیہ تہذیب کو ختم کیا-
جارہا ہے۔ اوقاف کی زمینوں پر قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ قبرستانوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ قبرستان کی زمین پر عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ مساجد کمیٹی کے بجٹ کے بارے میں کیا صورتحال ہے اس پر کوئی وضاحت نہیں ، اور ایسے کئی مسئلے مسائل اور مدعے ہیں جن پر کوئی بولنے اور لکھنے والا نہیں ہے۔ جن پر مشاہد سعید بہت بے باکی سے لکھتے تھے اور اس طرح کے مدعوں
کیلئے قلم اٹھاتے تھے۔
جناب مشاہد سعید صاحب کی یہ بڑی خوبی تھی کہ وہ قوم وملت کے سلگتے ہوئے مسئلے
مسائل کو لکھتے تھے، ان پر گہری نظر رکھتے تھے اور بسا اوقات آپ کی تحریروں نے وہ انقلابی
کارنامہ انجام دیا ہے جس کی توقع کرنا بھی اب ہمارے لئے دشوار ہے۔ آپ ایک صحافی
ہی نہیں ملت کا درد رکھنے والے ایک بہترین انسان تھے، آپ کے بعد قوم کے مسئلے کو لکھنے
اور جاننے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
آپ نے مختلف اُردو اخباروں میں خدمات انجام دی ہیں ۔ روزنامہ اُردو ایکشن سے آپ نے اُردو صحافت کی شروعات کی اور تقریبا • ارسال سے بھی زائد عرصے تک اُردو ایکشن سے جڑے رہے اس کے بعد روزنامہ ”ندیم“ سے ایک طویل عرصے تک آپ وابستہ رہے۔ آپ کی پیدائش رائسین میں ہوئی تھی اور 64 سال کی عمر میں بھوپال میں آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ شہر بھوپال اور اطراف و اکناف کے مسئلے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور ر پوٹنگ کیا کرتے تھے۔ آپ ایک ذمہ دار صحافی تھے۔ اس فن میں
آپ کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔
مشاہد سعید صاحب ایک بے باک صحافی تھے اور قوم کی بے لوث خدمت کرتے
تھے۔ بھوپال کے اُردو داں حضرات کو چاہئے کہ جناب مشاہد سعید صاحب کی طویل
خدمات کو یاد کریں اور لوگ انہیں ہمیشہ یادرکھیں اس کے لئے اقدامات کریں۔ پسماندگان
کی خبر گیری کریں اور ان کے لئے دعائے مغرفت کریں۔