All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

جانئے حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کی دینی و معاشرتی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

رانچی شہر میں بہت سارے علماء کرام ہوئے اور ہیں جنھوں نے اپنی دینی اور معاشرتی خدمات سے رانچی شہر ہی نہیں بلکہ اس پورے علاقے کو متاثر کیا، ان کی ہمہ جہت خدمات نے انھیں مقبول عام بنادیا جن کا تذکرہ آج بھی عمر دراز لوگ اپنی مجلسوں میں کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی دینی و معاشرتی خدمات کی بنیاد پر آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ، انہیں علماء کرام میں ایک بڑی مشہور و معروف اور مقبول شخصیت حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کی ہے جنہں ان کی علمی صلاحیت ، نرم گفتگو ، تقریر کرنے اور سمجھانے کا انداز اور اپنے صوفیانہ مزاج و اخلاق کی وجہ سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے ، مولانا شعیب رحمانی صاحب بنیادی طور پر بہار کے دربھنگہ ضلع کی علمی و روحانی بستی ” جالے” میں پیدا ہوئے ،اپ کا تعلق سید خاندان اور قاضی گھرانے سے تھا ،عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین اور اپنے دور کے فقیہ وقت حضرت مولانا قاضی مجاھد الاسلام قاسمی آپ کے سگے ماموں تھے ، مولانا شعیب رحمانی صاحب نے اپنی تعلیم کا بیشتر حصہ بہار کی مشہور و معروف دینی درسگاہ خانقاہ رحمانی مونگیر میں رہ کر حاصل کیا جس کی نسبت سے آپ ” شعیب رحمانی” سے مشہور ہوئے ، حالانکہ آپ نے ایشیاء کی مشہور و معروف اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ، آپ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اور ہونہار طالب علم میں شمار کئے جاتے تھے ، دورہ حدیث میں اول مقام حاصل کیا تھا ، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کو متحدہ بہار کے وقت سے ہی اہل رانچی خصوصاً اٹکی کے لوگوں سے ایک خاص تعلق اور لگاؤ تھا ، اسی نسبت سے اٹکی کے مسلمانوں کے مطالبے پر ان کی دینی تعلیم و تربیت اور ان کی امامت و قیادت کے لئے اپنے ہونہار بھانجے حضرت مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ کو اٹکی بھیج دیا ،کئی برسوں تک آپ اٹکی کی جامع مسجد میں امامت و خطابت اور تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنا عملی جوھر اٹکی والوں پر لٹاتے رہے ، نہایت ہی عام فہم انداز میں لوگوں نے جب آپ کی تقریر سنی تو وہ آپ کے گرویدہ ہوگئے ، اپ کی علمی قابلیت اور آپ کی تقریر و بیان کا جب شہرہ ہوا تو دور دور سے لوگ آپ کا بیان سننے کے لئے اٹکی جامع مسجد آنے لگے ، آپ کے علم و عرفان اور انداز خطابت و بیان کی مہک اٹکی سے جب رانچی پہنچی تو رانچی والوں کی فرمائش پر آپ کے ماموں قاضی مجاھد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ نے آپ کو رنگ ساز مسجد رانچی میں امام و خطیب کی حیثیت سے منتقل کردیا ، آپ اپنے ماموں قاضی مجاھد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کو ساری زندگی اپنا گارجین اور اپنا سرپرست سمجھتے رہے ، رنگ ساز مسجد رانچی میں امامت کی ذمداری کے ساتھ ساتھ روزانہ عصر کی نماز کے بعد زندگی میں پیش آنے والے روزمرہ کے مسائل بیان کرتے اور صبح کی نماز کے بعد قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے ، یہ دونوں بیان لوگ بڑے شوق اور دلجمعی کے ساتھ سنتے تھے آپ کی تقریر کا انداز بالکل نرالا تھا آپ کی تقریر اس طرح ہوتی تھی جیسے کوئی کسی ناسمجھ بچے کو بڑی پیار و محبت سے سمجھا رہا ہو آپ کی تقریر اور آپ کے انداز بیان کا کوئی جواب نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ رنگساز مسجد میں دور دور سے لوگ آپ کا بیان سننے کی وجہ سے اتے تھے ، اس طرح آپ اپنا پورا وقت پنج وقتہ نماز کی امامت و جمعہ کی خطابت اور روزانہ عصر اور صبح کی نماز کے بعد رنگساز مسجد کے منبر و محراب سے دینی خدمات انجام دیتے رہے لیکن جب آپ کی مدرسہ اسلامیہ رانچی میں بحیثیت مدرس بحالی ہوگئی اور آپ نے وہاں درس دینا شروع کیا تو وقت کی قلت اور تنگی کے پیش نظر پنج وقتہ نماز کی امامت کی ذمداری ادا کرنے سے معذرت کرلی اور صرف جمعہ کی امامت و خطابت کی ذمےداری کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک باقی رکھا، حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ عوام و خواص میں اپنی تقریر اور انداز بیان کی وجہ سے بہت جلد مشہور و مقبول ہوگئے ، کسی بھی موضوع پر آپ کا بیان نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں ہوا کرتا تھا ، آپ کی تقریر اور بیان جتنا ایک پڑھا لکھا آدمی سمجھتا تھا اتنا ہی ایک عام فہم اور جاھل آدمی بھی اتنا ہی سمجھتا تھا ، آپ کی علمی قابلیت کا کوئی جواب نہیں تھا مگر آپ اپنے وعظ و تقریر میں عوام کی علمی سطح سے بلند ہوکر بات نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تقریر و بیان میں اپنے علمی رعب کا اظہار کرتے تھے ، آپ کی وعظ و تقریر اور آپ کے انداز بیان کی جب شہرت ہوئی تو مختلف مواقع پر آپ کا بیان رانچی اور رانچی سے باھر بھی کثرت سے ہونے لگا، آپ نے آج کے پیشہ ور مقرر کی طرح کبھی کوئی نذرانہ قبول نہیں کیا حتی کہ تقریر کے بعد وہاں کھانا بھی نہیں کھاتے تھے ،یہ میں نے خود بارہا دیکھا ہے کیوں کہ میں اکثر و بیشتر ان کے ساتھ رہتا تھا ،بلکہ مجھے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ میں حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کا دوھرا شاگر خاص رہا ہوں ،میں نے مدرسہ اسلامیہ رانچی میں ان سے پڑھا ہے اور جب وہ شعبہ اردو کے پروفیسر ہوکر رانچی یونیورسٹی رانچی چلے گئے تو میں نے وہاں بھی ان سے ایم ، اے، میں پڑھا ہے ، مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ ایک ایسے عالم دین تھے جن کا تعلق اور رشتہ سماج کے ہر طبقے کے ساتھ تھا وہ سب کے نزدیک یکساں طور پر مقبول تھے ، رانچی میں کسی زمانے میں اکثر و بیشتر غنڈوں کی آپسی لڑائی برادریت کی شکل میں تبدیل ہو جاتی تھی جس سے عام لوگوں کو بڑی تکلیف اورئپریشانی ہوتی تھی تو اس وقت مولانا شعیب رحمانی صاحب سامنے آتے اور دونوں گروپ کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا بجھا کر صلح کرا دیتے اور معاملے کو رفع دفع کرا دیتے تھے، جس سے آپ کی مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا تھا اور لوگ آپ کے گرویدہ ہوجاتے تھے ، رنچی کے قلب مین روڈ میں واقع اقراء مسجد مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ کی سوچ اور ان کی فکر کا نتیجہ ہے ، ” اقراء مسجد” نام بھی رکھا ہوا انھیں کا ہے ،مسجد کی کفالت اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے نیچے مارکیٹ اور اوپر مسجد کی تجویز مولانا کے بہت ہی قریبی دوست جناب حسین قاسم کچھی کی تھی جسے مولانا شعیب رحمانی صاحب نے بہت پسند کیا اور اس کے جائر ہونے کا فتویٰ اپنے ماموں قاضی مجاھد الاسلام قاسمی صاحب سے حاصل کیا کیوں رانچی کے لئے یہ ایک بالکل نئی چیز تھی ، مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ نے مدرسہ اسلامیہ رانچی اور رنگ ساز مسجد رانچی اپنی خدمات کے دوراں میٹرک ، آئی ، اے اور بی ، اے پھر ایم ، اے ، کیا ، اس کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تو آپ کی سرکاری نوکری اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی رانچی میں ہوگئ ، اس زمانے میں ایک مولوی کے لئے یونیورسٹی کا پروفیسر ہوجانا بہت بڑی بات تھی، اتنی بڑی حیثیت اور مقام حاصل ہونے کے باوجود آپ کے مزاج میں کبھی فخر و غرور کا شائبہ تک نظر نہیں آیا ، وہی فقیرانہ اور صوفیانہ رنگ و بو ہمیشہ برقرار رہا ، آپ کے معاصرین میں مولانا جمیل اختر صاحب علیہ الرحمہ ، مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب علیہ الرحمہ ، مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب علیہ الرحمہ ، مولانا غلام مصطفی صاحب علیہ الرحمہ ، مولانا تسنیم جنیدی صاحب علیہ الرحمہ ہوا کرتے تھے مگر کیا مجال کہ انھوں نے آج کے چند مفاد پرست اور خود غرض علماء کی طرح ایک دوسرے کے خلاف سازش کی ہو اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے لئے اپنی عالمانہ سطح سے نیچے گر گئے ہوں ، مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کا اپنے معاصرین علماء سے کبھی ٹکراؤ نہیں ہوا ،وہ سب کا اکرام کرتے تھے اور سب ان کا اکرام کرتے تھے ، اس خوبی اور اس صفت سے آج ہم علماء خالی ہیں ، مولانا شروع سے سادگی پسند اور تام جھام سے دور رہنے والے عالم دین تھے ،ایک مرتبہ میں نے ان سے ایک سوال کیا کہ سر آپ جب رنگساز مسجد اور مدرسہ اسلامیہ میں تھے تو زیادہ خوشحال اور ہشاش بشاش رہتے تھے لیکں جب آپ یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے اور مدرسہ و مسجد سے دس بیس گنی تنخواہ پانے لگے ہیں مگر وہ خوشحالی اور وہ اطمینان قلب نظر نہیں آتا جو مسجد اور مدرسہ میں رہتے ہوئے نظر آتا تھا ،میرے اس سوال کا ایسا صوفیانہ جواب دیا کہ میں دنگ رہ گیا ،انہوں کہا کہ دیکھو بیٹا(وہ اکثر و بیشتر سب کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے) بات دراصل یہ ہے کہ جب میں مسجد اور مدرسہ میں دن رات مسائل اور قرآن کی تفسیر بیان کرتا تھا تو اللہ اور کے رسول اور ان کے کلام کی کرتا تھا تو اس پر ملنے والی قلیل تنخواہ میں برکت تھی لیکں جب میں نے مسجد اور مدرسہ کی ملازمت چھوڑ دی اور یونیورسٹی میں سرکاری ملازم ہوگیا تو مجھے یہاں ایم ، اے ، کا کلاس لیتے ہوئے چار پانچ گھنٹی روزانہ میر و غالب اور اقبال و سودا اور ان کے کلام کی تعریف کرنی پڑتی ہے تو جو تنخواہ آللہ اور اس کے رسول اور اس کے کلام کی جگہ میر و غالب اور اس کے کلام کی تعریف کرنے ہر ملے گی وہ تو اپنا اثر دکھائے گی ، رانچی میں جب بھی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی تو مولانا بلا خوف و خطر سامنے آجاتے تھے جس سے رانچی کے مسلمانوں کو اطمینان ہوجاتا کہ ہماری دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی رہنمائی کے لئے بھی حضرت مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ میدان عمل میں ہر وقت موجود رہتے ہیں ، مولانا نے اصلاح معاشرہ پر بہت کام کیا ہے جس فہرست بہت طویل ہے ، انھوں نے اپنے عمل سے رانچی والوں اور خاص کر علماء طبقہ کو بتادیا کہ ایک مولوی کو کبھی بھی لکیر کا فقیر بنے رہنا نہیں چاہئے ، ضلع انتظامیہ میں بھی آپ کی بڑی عزت اور پکڑ تھی ، اس وقت کے سی ، ٹی ، ایس ، پی ، اروند پانڈے تو آپ کے بہت بڑے فین اور مرید تھے ، بڑے بڑے سیاسی لیڈر آپ کے قدموں میں اگر شرف ملاقات حاصل کرتے ، اپ کبھی کسی سیاسی لیڈر کے دروازے پر نہیں گئے ، ہمیشہ فقیرانہ شان و بے نیازی کے ساتھ رہے ، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی آپ کو بڑی فکر رہتی تھی اپنی اسی فکر کی بنیاد پر آپ نے ادریسیہ تنظیم ، قریش اکیڈمی ،گدی تنظیم و گدی اکیڈمی کے نام سے اسکول کھولنے کی راہ دکھائی جو آج بھی قائم ہے ، کسی زمانے میں گھروں سے پائخانہ ڈھونے کا کام کرنے والے مسلمانوں سے مسلمان قریب نہیں ہوتے تھے اور نہ ان کو اپنے قریب کرتے تھے ،مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ نے ایسے لوگوں کو ” حلال خور” کا نام دیا اور مسلمانوں کو ان سے قریب ہونے اور ان کو اپنے سے قریب کرنے کی ترغیب دی ، ان کے بجوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے ” مدرسہ طاھرین” ندی گراؤنڈ ہند پیڑھی رانچی میں قائم کیا جو آج بھی چل رہا ہے ، حضرت مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ کے متعلق تو اتنی باتیں ہیں کہ ان کا احاطہ ایک مضمون میں نہیں کیا جا سکتا ہے ، مولانا کو سگریٹ پینے کی بہت عادت تھی ،معلوم نہیں یہ ان کو کہاں سے لگی اور کس نے لگائی کہ یہی سگریٹ نوشی ان کی جان کی دشمن بن گئی اور مولانا اس دارفانی سے رخصت ہو گئے ،ان کے جنازے میں آدمیوں کا امنڈتا ہوا سیلاب رانچی والوں اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا یہ پہلا موقع تھا جب کس عالم دین کے جنازے میں اتنی بھیڑ دیکھی گئی ، ان کے جنازے کے چاروں پائے میں لمبا بانس باندھا گیا کیوں ہر شخص کی تمنا اور آرزو تھی کہ میں مولانا کے جنازے کو کاندھا دوں ، مولانا کے جنازے میں رانچی ایس ، پی ، اروند پانڈے مولانا کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ،اپ کے ماموں قاضی مجاھد الاسلام قاسمی صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو رانچی کے ڈورنڈہ قبرستان میں دفن کیا گیا ، مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کے متعلقین کا حلقہ اور دائرہ بہت وسیع تھا جن میں مولانا جمیل اختر صاحب ، مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب ، مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب ، مولانا تسنیم جنیدی صاحب ، مولانا غلام مصطفی صاحب اور سب سے خاص جناب حسین قاسم کچھی صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، میں ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی) طالب علمی کے زمانے سے لے کر ان کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کے ساتھ رہا ہوں ،میرے والد محترم کے ساتھ ساتھ میری تعلیم و تربیت میں حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کا خاص دخل ہے ، میرے بچپن کے زمانے میں جب میں مدرسہ اسلامیہ رانچی میں پڑھتا تھا وہ اکثر و بیشتر میرے والد محترم سے کہا کرتے تھے کہ مولانا صدیق صاحب میں عبید اللہ کو اپنا لے پالک بنا لیتا ہوں آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ، واضح ہو کہ مولانا شعیب رحمانی صاحب کی سات بیٹیاں ہیں کوئی بیٹا نہیں ہے ، ساری بیٹیوں کی شادی ہوگئی اور اپنی جگہ خوشحال ہیں ، مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کا انتقال سروس میں رہتے ہوئے ہوا اس لئے ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ کو انوکمپا کی بنیاد پر مارواڑی کے لائبریرین کے پوسٹ پر نوکری ملی جہاں سے ریٹائر ہوکر اب وہ اپنی بیثیوں کے ساتھ رہتی ہیں ،اللہ تعالیٰ حضرت مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجے بلند فرمائے آمین

Leave a Response