All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

مقاصد و مسائل صدقۃ الفطر و عید الفطر

Share the post

شریعت مطہرہ نے صاحب نصاب اور خوشحال مسلمانوں کے لیے اختتام ماہ مبارک و آغاز عید سعید پر یہ لازم اور ضروری قرار دیا ہے کہ وہ جب تک خداۓ وحدہ لا شریک لہ کے غریب و لاچار بندوں و بندیوں کے زخموں پر مرہم عنایت و عطایا کی پٹی باندھ نہ دیں، ان کے آنسو پوچھ کر ان کا تن نہ ڈھانپ دیں اور ان کا چولہا گرم کر کے ان کے پھول جیسے نونہالوں کو مسکراتا نہ دیکھ لیں وہ خود بھی عید نہ منائیں، اسلام میں اسی آپسی ہمدردی اخوت و بھائی چارگی کے ضروری حصہ کی ادائیگی کو صدقۃ الفطر اور زکوۃ الفطر کہا جاتا ہے؛چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کو ضروری قرار دیا ہے جو روزہ دار کے لیے لغویات اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور غریبوں کے لیے کھانے کا انتظام ہے (ابو داؤد شریف جلد 1 ص 227) معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر کے دو مقاصد ہیں ایک روزہ دار کے روزہ کی کوتاہیوں کی تلافی دوسرے غریبوں کے لیے عید کے دن خوراک کا انتظام اگر کوئی صاحب وسعت مسلمان نماز عید سے دو چار یوم پہلے صدقۂ فطر ادا کردے تو اور بھی بہتر ہے،حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول تھا کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے ہی نکال دیا کرتے تھے اور یہ مناسب ہے تاکہ ضرورت مند ہماری طرح پہلے سے ہی عید الفطر کی تیاری کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر خوشیاں منائیں۔
مسائل صدقۃ الفطر: صدقہ فطر ان تمام مسلمانوں پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا جوان بشرط کہ وہ نصاب، قرض اور ضروریات زندگی سے زائد اتنی ہو جس کی مالیت ساڑھے 52 تولہ چاندی موجودہ وزن 612 گرام 360 ملی گرام کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو اس پر سال گزرا ہو یا سال نہ گزرا ہو۔
اپنی ذات کے علاوہ ان لوگوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالنا واجب ہے جن پر مکمل ولایت ہو اور وہ زیر پرورش ہوں جیسے نابالغ غریب بچے اور بچیاں اور بالغ غریب مجنوں و پاگل بچے و بچیاں،البتہ بالغ اولاد کی طرف سے باپ پر بیوی کی طرف سے شوہر پر اور ماں باپ کی طرف سے ان کی اولادوں پر صدقۃ الفطر واجب نہیں ہے۔
اگر کوئی صاحب نصاب رمضان المبارک میں صدقۃ الفطر نہ نکال سکا اور نہ عید الفطر کے دن وہ ادا کر سکا تب بھی اس کو ہر حال میں مرنے سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
صدقہ فطر انہی لوگوں کو دینا چاہیے جن لوگوں کو زکوۃ دینا جائز ہے۔
افضل اور بہتر یہ ہے کہ ایک آدمی کا صدقہ فطر کسی ایک ہی غریب کو دیا جائے، ویسے اگر ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی آدمیوں کو دے دیا یا کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک ہی ضرورت مند کو دے دیا تب بھی جائز ہے۔
اگر کسی کے پاس کئی مکانات اور دکان ہوں خواہ وہ کرایہ پر لگے ہوں یا خالی ہوں اسی طرح بہت ساری زمینیں ہوں اور ان کی قیمت نصاب شرعی کے برابر یا اس سے زائد ہو،ان پر گزر بسر کا دارومدار نہ ہو تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب ہے ۔ اس کو زکوۃ یا صدقہ فطر کی رقم دینا اور اس کے لیے لینا بھی جائز نہیں ہے۔ہاں! گزر بسر کا تعلق اسی مکان دوکان اور زمین کی آمدنی پر ہے ان کے علاوہ کوئی دوسرا سورس آف انکم نہیں ہے تو یہ ساری چیزیں ضروریات اصلیہ میں داخل ہوں گی ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے اسے زکوۃ دینا اور اس کے لیے لینا جائز اور درست ہے البتہ نہ لے تو زیادہ بہتر ہے، جس پر صدقہ فطر واجب ہے وہ زکوۃ و دیگر صدقات واجبہ نہیں لے سکتا اور جس کے لیے زکوۃ و دیگر صدقات واجبہ لینا جائز ہے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے۔
مقدار صدقۃ الفطر:

صدقۃ الفطر کی مقدار گیہوں سے ادھا صاع جس کا موجودہ وزن ایک کلو 692 گرام ہے اور قیمت 60 روپیے ہے اور اگر کوئی صاحب نصاب شخص پنیر کشمش اور کھجور سے صدقہ فطر دینا چاہے تو ایک صاع ہے جس کا موجودہ وزن تین کلو 384 گرام ہے جو کہ قیمت 155 روپیے کشمش کی قیمت 914 روپے پنیر کی قیمت 1134 روپے اور کھجور کی قیمت 1185 روپے ہے، اس نقشہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔


صاحب حیثیت اور مالدار مسلمانوں کی خدمت میں ایک گذارش: ہمارے زمانہ میں ادھا صاع گیہوں کی قیمت تقریبا 60 روپے بنتی ہے جو اہل ثروت، صاحب حیثیت اور مالدار مسلمانوں کے لیے کوئی وقعت و اہمیت نہیں رکھتی لہذا ان حضرات کی خدمت میں ایک گزارش یہ ہے کہ وہ ادھا صاع گیہوں کے بجائے کم از کم ایک صاع جو اور اس سے بھی بہتر ہے کہ ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھجور سے صدقہ فطر ادا کرین ۔اس سے فقرا و مساکین و ضرورت مندوں کا فائدہ بھی ہوگا اور صدقہ فطر دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ ثواب بھی ملے گا۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ عراق میں رمضان المبارک کے آخر میں خطبہ (تقریر )کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا جو یاآدھا صاع گیہوں کا صدقۂ فطر ضروری قرار دیا ہے، اس حدیث میں صرف تین چیزوں کا تذکرہ ہے کسی حدیث میں چار اور کسی حدیث میں پانچ کا بھی ذکر ملتا ہے جو ہر ازاد غلام مرد و عورت چھوٹے بڑے پر لازم ہے، (غلام کی طرف سے آقا اور چھوٹے بچے کی طرف سے اس کے والد ادا کریں گے) لیکن جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ وہاں تشریف لائے اور دیکھا کہ گیہوں کا بازاری ریٹ بہت کم ہے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر وسعت فرمائی ہے اس لیے اگر تم صدقۂ فطر ہر چیز کا ایک صاع کےحساب سے نکالو تو یہ بہت ہی اچھا بہتر ہے(ابو داؤد شریف ج1 صفحہ 229)
عید الفطر اور اس کے احکامات

: مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو اہل مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے بس وہی رواج جو اب تک چلا آ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دیے ہیں اب وہی تمہارے قومی و مذہبی تہوار ہیں ایک عید الاضحی ہے اور دوسرا عید الفطر ہے۔
اسلام سے پہلے اہل مدینہ زمانے جاہلیت میں جو دو تہوار مناتے تھے وہ جاہلی مزاج و تصورات اور جاہلی روایات کے ائینہ دار ہوتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قدیمی اور خرافاتی تہواروں کو ختم کر کے ان کی جگہ عید الفطر عید الاضحی عظیم الشان دو تہوار اس امت کے لیے مقرر فرما دیے جو اس کے توحیدی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اور اس کی تاریخ و روایات اور عقائد و تصورات کی پوری طرح ائینہ دار ہیں۔کاش اگر مسلمان اپنے تہواروں کو صحیح طور پر مناتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیم کے مطابق عمل کرتےتو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے کے لیے صرف یہ دو تہوار ہی کافی ہو سکتے ہیں ۔
ہائے افسوس ! ہمارے زمانے میں مختلف علاقوں میں عید الفطر کا چاند نظر آتے ہی جو آتش بازیاں ہوتی ہیں راستوں گلیوں کو قمقموں سے سجائے جاتے ہیں ہیہودگیاں ہوتی ہیں اور ڈی جے ناچ گانے بجانے جاتے ہیں شریعت مطہرہ میں ان پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ” اس امت میں زمین کا دھنسنا صورتوں کا تبدیل ہونا اور پتھروں کی بارش کا ہونا واقع ہوگا ایک مسلمان نے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کب ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ناچنے والیاں اور باجے عام ہو جائیں اور شراب و نشہ خوب ہونے لگے”اللہ ان خرافات سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے آمین ۔
مستحبات عید الفطر:
عید کے دن غسل کرنا ، مسواک کرنا، خوشبو لگانا، عیدگاہ کو ایک راستہ سے جانا دوسرے سے آنا ، نماز عید کو خشوع خضوع اجتماعا ادا کرنا خطبہ کو پوری توجہ سے سننا حتی کہ اگر آواز نہ بھی پہنچتی ہو تب بھی خاموش بیٹھ کر خطبہ کی طرف متوجہ رہنا۔
مباحات و مکروہات عید الفطر:
ان کے علاوہ رواجی امور بعض مباح کے درجہ میں ہیں، مثلاً اچھا کھانا بنالینا غرباء فقراء مساکین اعزہ اقرباء رشتہ دار متعلقین احباء کو کھلانا، بعض امور خلافِ سنت اور بدعتِ و مکروہ کے درجہ میں ہیں جیسے عید الفطر کی نماز کے بعد مصافہ و معانقہ کرنا وغیرہ ۔

مضمون نگار: شہر قاضی رانچی و خطیب حواری مسجد رانچی حضرت مولانا مفتی قمر عالم قاسمی

Leave a Response