All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

رانچی سے نکلا تھا جھارکھنڈ کا پہلا اردو اخبار۔۔۔ چھوٹا ناگپور میل

Share the post

رانچی(سیف الحق)میں اردو صحافت کی تاریخ ثمر الحق کے بغیر نامکمل ہے۔ جنھوں نے تاحیات اردو کو اس کا مقام دلانے کے لئے زبردست قربانیاں دیں ۔ اردو کے لئے جیل بھی گئے ، اذیتیں بھی اٹھای ، تکلیفیں بھی اٹھا ئیں مگر کبھی اس کا صلہ نہیں چاہا ، اردو کے معتبر صحافی ثمر الحق جن کی ادارت میں رانچی سے جھارکھنڈ کا پہلا ا اردو اخبار چھوٹا ناگپور میل ہفتہ وار ، 15 اگست 1967 میں منظر عام پر آیا اور لگا تار کئی سالوں تک شائع ہوتا رہا۔ 1967 سے اردو آبادی کے مسائل پر لوگوں کو بیدار بھی کرتے رہے۔ لیکن ہم نے ایسی قابل قدر شخصیت کو فراموش کر دیا۔
ان کی پیدائش 3 فروری 1929 کو رانچی کے چرچ روڈ میں ہوئی ۔ والد زین العابدین جنگ آزادی کے سپاہی رہے۔ تحریک آزادی میں جیل بھی گئے ۔ شمر الحق نے اپنی شروعاتی تعلیم چرچ روڈ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی ۔ اپر پرائمری کے امتحان میں وہ چھوٹا ناگپور میں اول آئے ، انعام
کے طور پر 3 روپیہ ہر ماہ اسکالرشپ ملنے لگی ۔

مڈل کے امتحان میں انھوں نے پورے بہار میں اول مقام حاصل کیا ۔ انھیں 25 روپیہ ہر ماہ اسکالر شپ ملنے لگی۔ جو کہ میٹرک تک جاری رہی ۔ رانچی ضلع اسکول سے انھوں نے میٹرک کا امتحان 1944 میں پاس کیا ۔ 1946 میں سنت زیویر کالج میں داخل ہوئے۔ اس دوران وہ اردو میں مضامین افسانچے اور تکلمیں لکھا کرتے تھے جو مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوئے ۔ 1953 میں الجمعیۃ اردو اخبار میں سیاسی و سماجی مسائل کے عنوان سے عمدہ مضمون پر ۱۰۰ار روپے کے انعام سے نوازے گئے ۔ 1956 سے وہ سرکار کے منظور شدہ اخبار نویس کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔ رانچی سے نکلنے والے تقریبا سبھی اخبار سے وقتاً فوقتا جڑے رہے۔ دیوی پر ساد داس گپتا کے زیر نگرانی سنڈے پریس اور ڈیلی پریس میں بھی خدمت انجام دیا۔


1976 میں مولانا آزاد کی 18 ویں یوم وفات پر ثمر الحق کی ادارت میں ہندی اردو اور انگریزی کا ایک مجلہ نکلا ۔ اس مجلہ میں مولانا آزاد کے رانچی قیام سے متعلق مستند تخلیقات کو یکجا کرنے کا کام کیا۔ ان کی اس خدمت کے لئے مولانا آزاد شتابدی سماروہ میں جس کا انعقاد خدا بخش لائبریری نے کیا تھا، شمر الحق کو بہار کے موجودہ گورنر جناب یونس سلیم صاحب نے سند دیگر عزت افزائی کی ۔ ثمر الحق کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔جن سنگھ نے جب اردو ہٹاؤ کی تحریک چلائی تب ثمر الحق صاحب نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اردو بچاؤ تحریک میں انہیں جیل بھی جانا پڑا رمضان اور عید اپنے چھوٹے بچوں کے بغیر جیل میں گزرا۔ مدرسہ عراقیہ، عراقی گرلس اسکول ، انجمن اسلامیہ اسپتال ، آزاد کالج کے قیام میں ان کی فعال حصہ داری رہی ۔ 80 سے 90 کے شروعاتی دور تک انجمن اسلامیہ رانچی کے جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے ۔ انجمن پلازہ مارکیٹ ان کے دور میں تعمیر ہوا ۔ ہندو مسلم ایکتا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ 1967 کے دنگے میں اجڑے ہوئے لوگوں کو بسانے میں موجودہ سرکار سے لڑکر ان کا حق دلوا یا ۔ مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے 1988 میں اخبار بند کرنا پڑا ۔ 1990 میں سید شہاب الدین کے مسلم انڈیا سے وابستہ ہوئے اور کئی سالوں تک اس سے جڑے رہے۔


“پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر” اور “گر برا نہ مانیں” کے نام سے کالم “رانچی ایکسپریس” اور “رانچی ٹائمنز ” میں چھپتا تھا ۔ آخری کے چند سال وہ بیمار رہے اور 16 ستمبر 2012 کو آخر کار اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔
رانچی میں انھوں نے اردو صحافت کو ایک پہچان دلائی۔ ثمر الحق ایک بے خوف اردو صحافی اور اردو بے لوث خدمت گار کے طور پر ہمیشہ یادر کھے جائیں گے۔
سیف الحق جنرل سیکرٹری جمعیت العراقین رانچی جھارکھنڈ

Leave a Response