جناب حلیم صاحب کی شخصیت اور ان کی سماجی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


کسی بھی معاشرے میں انسان اپنے کردار و گفتار اور اپنے اچھے یا برے اخلاق و اعمال کے ذریعے اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان بنا لیتا ہے ، لوگ اسی نسبت سے یا تو اس کے قریب ہوتے ہیں یا اس سے دور رہتے ہیں ، رانچی شہر کے جن لوگوں نے اپنی جوانی کے دنوں سے لے کر اب تک اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان بنائی ہے ان میں ایک اھم اور نمایاں نام جناب حلیم الدین صاحب (حلیم بھائی) کا ہے ، کلال ٹولی رانچی کے رہنے والے حلیم صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ایک بہت ہی شریف سیدھے سادے اور مہذب انسان ہیں ، انھوں نے M ، A اور L L B کی تعلیم حاصل کی ہے ، تعلیم مکمل ہونے کے چند ہی مہینوں کے بعد 1971 میں ان کی سرکاری نوکری A G , Office میں ہوگئی ، انھوں نے مختلف سماجی خدمات سے منسلک رہ کر پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی ملازمت کی ذمےداریوں کو بحس و خوبی انجام دیا اور فروری 2010 میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے ، حلیم صاحب کو شروع سے کھیل کود سے خاصی دلچسپی رہی ہے اور اب بھی ہے ،وہ فٹبال اور بیڈمنٹل کے بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں ، ہمیشہ اسپورٹس سے تعلق اور پابندی سے ورزش کرتے رہنے کی بنا پر ان کی صحت آج بھی ماشاءاللہ اپنے چھوٹے بھائی نعیم صاحب سے بہت اچھی ہے ، آپ نے رانچی ضلع اسپورٹس کلب اور رانچی یونیورسٹی رانچی کی جانب سے کئی میچ کھیلا ہے اور ہمیشہ کامیاب رہے ہیں ، آپ ایک عرصے تک رانچی ضلع فٹبال ایسوسی ایشن کے سکریٹری بھی رہے ہیں ، جناب حلیم صاحب انجمن اسلامیہ کی مجلس عاملہ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ انجمں اسلامیہ اسپتال اور مولانا آزاد کالج سے خاص طور پر منسلک رہے اور ان دونوں اداروں میں آپ نے پوری ایمانداری سے نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ، ویسے بھی آپ کی ایمانداری کے کئی واقعے بہت مشہور ہیں ، لوگ بتاتے ہیں آپ 1980 سے کانگریس کے قدآور رہنما جناب گیان رنجمن جی کے ساتھ رہے
، آپ گیان رنجمن جی کے بہت خاص اور بھروسہ مند لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ،گیان رنجن جی کو آپ پر بڑا اعتماد تھا جسے آپ نے کبھی ٹوٹنے دیا ، لوگ آج بھی کہتے ہیں جب چناؤ آتا تو گیان رنجمن جی جناب حلیم صاحب کو چناؤ میں خرچ کرنے کے لئے روپئے دیتے تھے تو چناؤ کے بعد حلیم صاحب بچی ہوئی رقم گیان رنجمن جی کو واپس کردیتےتھے ، آج کے بے ایمانی اور حرام خوری کے دور میں اس واقعہ کو لوگ ایک فرضی واقعہ سمجھیں گے ، انجمن اسلامیہ رانچی کے رکن عاملہ کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، انجمن پلازہ مارکیٹ کی تعمیر کے لئے انجمن اسلامیہ رانچی کی مجلسِ عاملہ نے سات رکنی ” بلڈنگ کنسٹرکشن کمیٹی” بنائی تھی جس میں ایک اہم رکن حلیم صاحب بھی تھے ، مارکیٹ کا نام ” انجمن پلازہ ” شہر رانچی کے مشہور و معروف سماجی کارکن جناب حسین قاسم کچھی صاحب نے رکھا ہے ، انجمن پلازہ مارکیٹ کی تعمیر میں دوسرے ارکان کے ساتھ حلیم صاحب کی بڑی خدمات رہی ہے ، آپ کی ہی محنت و کاوش سے انجمن پلازہ مارکیٹ کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب لالو پرساد یادو کے ہاتھ سے ہوا ، رانچی کے چند قومی و ملی درد رکھنے والوں نے چالیس افراد پر مشتمل ایک سوسائٹی تشکیل دی جس کا نام ” ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی رکھا ، مدرسہ اسلامیہ رانچی کے خالی پڑے کمروں میں” مولانا آزاد کالج ” قائم کیا ، کالج کو چلانے کے لئے ہر چھہ ماہ بعد عارضی منظوری لینی پڑتی تھی جس میں کالج کا کافی روپیہ خرچ ہوتا تھآ لیکن جب حلیم صاحب مولاںا آزاد کالج کے سکریٹری ہوئے تو انھوں نے سب سے پہلے 1990/92 میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے بہار سرکار سے مولانا آزاد کالج کو مستقل منظوری دلائی جس کی بنیاد پر آج مولانا آزاد کالج کو مستقل منظوری حاصل ہے ، مستقل منظوری ملنے بعد ہی تنخواہ کے ساتھ اساتذہ و ملازمیں کے عہدے منظور کرائے گئے ، حلیم صاحب کے اس کارنامے کو لوگ خصوصاً مولانا آزاد کالج کے اسٹاف آج بھی یاد کرتے ہیں اور ان کے احسان مند ہیں کہ بغیر روپئے خرچ کئے ہوئے انھوں نے یہ سارا کام خود پٹنہ میں بیٹھ کر کروایا جس کا فائدہ آج حلیم صاحب نہیں بلکہ قوم و ملت کے افراد اٹھا رہے ہیں ، کالج کے پرانے اساتذہ و ملازمیں کہتے تھے کہ جناب حلیم صاحب جیسا کام کرنے والا سکریٹری اب تک نہیں ہوا ، ایک مرتبہ حلیم صاحب نے کالج کے اساتذہ و ملازمیں کو تنخواہ کی شکل میں بطور ایڈوانس لاکھوں روپئے چک کاٹ کر دیا اور سب کے چک سے روپئے نکلے حالانکہ کالج کے اکاؤنٹ میں روپئے جمع نہیں تھے ، بعد میں معلوم ہوا کہ کسی دُوسرے کے اکاؤنٹ کا روپیہ کالج کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گیا ہے ، جب کالج فنڈ میں روپئے جمع ہوگئے تو حلیم صاحب نے بینک کے منیجر کا لیٹر لکھ کر بتایا کہ آپ کے بینک سے کسی دوسرے کے اکاؤنٹ کا روپیہ میرے کالج کے اکاؤنٹ میں غلطی سے ٹرانسفر ہو گیا اس لئے اتنا روپیہ آپ ہمارے کالج کے اکاؤنٹ سے کاٹ لیجئے ، حلیم صاحب کی اس ایمان داری سے بینک مینیجر بہت خوش ہوا اور اس نے حلیم صاحب کو اور ان کے اس عمل کو خوب سراہا ، رانچی شہر میں مسلمانوں کا اپنا کوئی اسپتال نہیں تھا ، اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے شہر کے چند درد مند حضرات نے 1967 کے ریلیف فنڈ کی بچی ہوئی رقم سے اسپتال کے لئے زمین خریدنے کا فیصلہ کیا اور کونکا روڈ میں تقریبآ ایک ایکڑ زمین خرید لی گئی ، کئی سالوں کے بعد اس زمین میں ایک بڑی عوامی میٹنگ ہوئی جس میں” انجمنِ اسلامیہ اسپتال” کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ، قاسم ہارون کچھی صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ کے ایصال ثواب کے نام پر دو تین کمرے اپنی طرف سے بنا دینے کا وعدہ کیا ، ان کے انتقال کے بعد اپنے والد محترم کی وصیت کے مطابق ان کے لڑکے جناب حسین قاسم کچھی صاحب نے وہ ایک ہال اور دو تین کمرے تعمیر کرائے جس میں ” عائشہ کچھی میٹرنیٹیو ہال” دیوار پر لکھا ہوا تھا، اس طرح پہلے مرحلہ میں ایک” کلینک ” کی شکل میں انجمن اسلامیہ اسپتال کی شروعات ہوئی ، اس کلینک کو انجمن اسلامیہ اسپتال کی شکل دینے میں جناب حلیم صاحب نے اپنے ساتھ کے ساتھ مل کر جو خدمات انجام دی ہیں وہ انجمن اسلامیہ اسپتال کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ،
انہوں اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر پورے شہر میں گھوم گھوم کر اسپتال کے لئے چندہ کیا ہے خصوصاً رمضان المبارک میں اردو لائبریری کے پاس ہر سال چندہ کیا جاتا تھا اور اسپتال کو آگے بڑھانے میں دن رات لگے رہے ہیں ، حلیم صاحب کی قیادت میں جناب علیم صاحب ، جناب نثار صاحب ، جناب نفیس صاحب ، جناب عطاء اللہ صاحب ،جناب اقبال خلیل صاحب ،جناب انیس صاحب ،جناب ایوب وکیل صاحب ، جناب سمیع آزاد صاحب ، جناب شمیم صاحب بہار ٹریڈرس ، جناب تنویر حیدری صاحب ، جناب مصطفیٰ چینا صاحب ،جناب مسعود انجینئر صاحب ،جناب پرویز منا صاحب ،جناب نظام صاحب ایچ ، ای ، سی ، اور ان سب کے سرپرست راعین مسجد کے امام و خطیب مولانا غلام مصطفی صاحب کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انجمن اسلامیہ اسپتال کو اسپتال کو ایک کلینک سے آگے بڑھا کر اسپتال کی شکل دینے اور اس کو اگے بڑھانے اور ترقی دینے میں جناب حلیم صاحب کا بڑا اہم کردار رہا ہے جسے عام طور پر سب جانتے ہیں ، حلیم صاحب کا شہر کے علماء کرام سے ہمیشہ رابطہ اور تعلق رہا ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی تحریک سے ہمیشہ منسلک رہے ، “شاہ بانو کیس” معاملے کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی طرف سے رانچی میں بھی ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ اور جلسہ ہوا تھا جس کے کنوینر جناب حلیم صاحب بنائے گئے تھے جس میں آپ کی محنت و کوشش کو علماء کرام نے بہت سراہا تھا ، سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ جناب حلیم صاحب نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کا بھی بہت اچھی طرح سے خیال رکھا ہے ، انہوں نے اپنی اولاد اور اپنے بھائی نعیم صاحب کی اولاد میں کبھی کوئی فرق نہیں رکھا اور نہ کبھی کوئی فرق محسوس یونے دیا ، میں نعیم صاحب کو اکثر کہا کرتا تھا کہ نعیم صاحب آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حلیم صاحب جیسا بھائی ملا جس کی بدولت آپ گھر اور بال بچوں کی ذمےداریوں سے بے فکر رہتے ہیں جس کا اعتراف نعیم صاحب خود بھی کیا کرتے تھے ، جس طرح نشہ کا عادی شخص نشہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ، ٹھیک اسی طرح سماجی خدمت کے نشہ کا عادی سماجی خدمات کے بغیر نہیں رہ سکتا ، جناب حلیم صاحب فی الحال اپنی ٹیم ” مورننگ گروپ” کے ساتھ مل غیر مسلم علاقہ اپر بازار رانچی کی قدیم ترین مسجد ” ھنڈا مسجد” کے وضوء خانہ کی تعمیر اور دوسرے مرمتی کام کروانے میں لگے ہوئے ہیں ، اللہ جناب حلیم صاحب اور ان کی پوری ٹیم مورننگ گروپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین ،
