ایسا خاموشی کا عالم ہوگا ہمارے جانے کے بعد, ہوکر اداس پرندے بھی تیرا شہر چھوڑ جائیں گے۔۔۔


آج صبح نو بجے جامعہ عثمانیہ اوئنا چندوے میں حضرت مولانا اختر حسین صاحب نوراللہ مرقدہ کی رحلت پر ایک دعائیہ نشست رکھی گئی جس میں حضرت قاری اشرف الحق صاحب المظاہری نائب مہتمم مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے پتراٹولی مولانا مصطفٰی صاحب المظاہری مدرس مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے پتراٹولی قاری صہیب احمد صاحب نعمانی مدرس مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے پتراٹولی کی شرکت ہوئی ۔

پروگرام کا آغاز مدرسے کے ایک طالب علم کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔۔
اس کے بعد مولانا مصطفٰی صاحب المظاہری نے تعزیتی کلمات پیش کیا انہوں نے کہا کہ
مولانا اختر حسین صاحب مرحوم کی رحلت پر دل گہرے صدمے سے دوچار ہے۔ وہ نہ صرف ایک عالم باعمل تھے بلکہ ایک شفیق بزرگ، مخلص راہنما اور امت کے لیے درد رکھنے والے انسان بھی تھے۔ ان کی پوری زندگی علم، تقویٰ، خدمتِ خلق اور اخلاص سے عبارت تھی۔ ان کا اخلاق، نرم گفتاری اور عاجزی ہر کسی کو متاثر کرتی تھی۔

مولانا مرحوم نے دین کی جو خدمت کی، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کا جانا نہ صرف ان کے اہلِ خانہ بلکہ پوری دینی برادری کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
اللہ ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اس کے بعد مدرسہ ہٰذا کے مہتمم قاری مظفر حسین عرفانی نے تعزیتی کلمات پیش کیا انہوں نے کہا کہ آج دل ایک عظیم محرومی کے احساس سے بوجھل ہے۔ حضرت والا وہ محض استاد نہ تھے، بلکہ ایک مشفق رہنما، ایک روشن چراغ، اور کردار کی بلندی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔
ان کے الفاظ صرف درس نہیں ہوتے تھے، بلکہ زندگی کے راستے دکھانے والی روشنی ہوا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں، نصیحتوں اور تربیت نے ہم جیسے بے شمار شاگردوں کی زندگی سنواری۔ آج ہم یتیم ہو گئے، علم کا وہ سائبان ہم سے اٹھ گیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کا فیض ہم تک پہنچائے، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے مشن کو لوگوں تک پہنچائیں۔
مولانا صاحب ہمیشہ ہماری دعاؤں میں زندہ رہیں گے۔۔۔
کیا کہوں کس طرح کہوں مظفر
جو چراغ بجھا ہے وہ ہر دل میں جلا تھا۔
پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانےکو،،،
اس کے بعد قاری صہیب احمد صاحب نے نم آنکھوں سے تعزیتی نظم پیش کیا جسے سن کر سب کی پلکیں تر ہو گئیں۔
حضرت اختر ہمارے درمیاں سے کھو گئے
دین کے جو پاسباں تھے آج رخصت ہو گئے
خوبصورت خوب سیرت تھے بڑے ہی باکمال
گفتگو تھی نرم جن کی تھے بڑے ہی بے مثال
تھا بلند اخلاق جن کا عاجزی بھی خوب تھی
خوش مزاجی سے وہ ملتے تھے جو ان کی شان تھی
کر کے آنکھیں سب کی نم وہ سب کو رلا کر چل دیے
حضرت اختر ہمارے درمیاں سے کھو گئے۔۔۔
آخر میں حضرت قاری اشرف الحق صاحب المظاہری نے تعزیتی کلمات بڑے رنج و غم کے ساتھ پیش کیا انہوں نے کہا کہ
حضرت مولانا اختر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر دل گہرے رنج و غم سے لبریز ہے۔ آپ ایک عالم دین مخلص مربی اور سچے عاشق رسول تھے اسلام کی پوری زندگی دین کی خدمت، تعلیم و تربیت اور روحانی اصلاح کے لیے وقف کر دیا۔
مولانا اختر حسین صاحب کی مجالس وعظ و نصیحت میں قرآن و سنت کی روشنی میں دلوں کی اصلاح اور روحانیت کی شمع روشن ہوتی ہے۔ آپ کا اندازِ سادہ پراثر اور دل میں اتر جانے والا تھا، جو سامعین کے دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور انہیں عمل کی طرف راغب کرتا ہے۔
آپ کی وفات سے علمی اور روحانی حلقوں میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے جس کا پر ہونا مشکل ہے۔ آپ کی خدمات علم تقویٰ اور اخلاق حسنہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
قاری اشرف الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے دعائیہ کلمات سے پروگرام کا اختتام ہوا ، اس موقع پر خالد سیف اللہ ندوی قاری اکمل رشیدی قاری زبیر حسینی قاری تہذیب رشیدی قاری بشارت عرفانی مولانا جمال الدین المظاہری امام و خطیب مسجد اوئنا حافظ امروز عثمانی موجود تھے ،،،
